سیدنا امام الائمہ، سراج الامہ، رئیس
الفقہاء، محدثِ کبیر، حافظِ حدیث، امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن
ثابت الکوفی (و:۸۰ھ- م:۱۵۰ھ) رحمہ اللہ کے
اوصافِ مخصوصہ: علم و عمل، زہد و تقویٰ، ریاضت وعبادت اور فہم و
فراست کی طرح، آپ کی شانِ محدثیت، حدیث دانی اور حدیث
بیانی بھی، اہل ایمان میں مسلم اور ایک
ناقابل انکار حقیقت ہے؛ لیکن اس کے باوجود، کچھ کم علم اور متعصب
افراد نے امام صاحب پر ”قلیل الحدیث“ اور ”یتیم فی
الحدیث“ وغیرہ ہونے کا الزام لگایا ہے، جو خالص حسد و عناد پر
مبنی ہے۔ ذیل کے مقالے میں، آپ کی شانِ محدثیت
کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ آپ صرف محدث ہی نہیں
بلکہ امامِ حدیث، حافظِ حدیث اور صاحبِ ”جرح و تعدیل“ ہونے کے
ساتھ ساتھ، کثیر الحدیث ہونے میں بعد کے محدثین مثلاً
امام بخاری و مسلم وغیرہ کے ہم
پلہ ہیں؛ جس سے آپ کا علمِ حدیث میں بلند مقام ومرتبہ کا ہونا
ظاہر ہے؛ نیز آپ پر حدیث کے حوالے سے کیے گئے اعتراضات کا بے بنیاد
ہونا بھی ان شاء اللہ ثابت ہوجائے گا۔
ضروری تجزیہ
امام صاحب کی علم حدیث میں
مہارت معلوم کرنے کے لیے آپ کی درس گاہ، نصابِ تعلیم اور اساتذہ
کا تجزیہ ایک ناگزیر ضرورت ہے، جسے اختصار کے ساتھ پیش کیا
جارہا ہے۔
اولیں درس گاہ اور حدیث کے لیے سفر
امام صاحب کی تبحر حدیث میں،
اس کا بھی دخل ہے کہ آپ کی اولیں درس گاہ ”کوفہ“ ہے جس کے
سرپرست اعلیٰ: حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور صدر مدرس حضرت
عبداللہ بن مسعود تھے، واضح رہے کہ یہ ”کوفہ“ ان حضرات کے ورود مسعود سے پہلے
بھی علم حدیث کا شہر تھا اور بعد میں تو خیر رہا ہی۔(۱)
امام صاحب کی تحصیل حدیث کی دوسری بڑی درسگاہ
”بصرہ“ ہے جو حسن بصری، شعبہ قتادہ کے فیض تعلیم
سے مالا مال تھا۔ چوں کہ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں
”حج“ استفادے اور افادے کا ایک بہت بڑا ذریعہ تھا؛ اس لیے تکمیل
حدیث کے لیے علوم شرعیہ کے اصل مرکز: حرمین شریفین
(صانہما اللہ تعالیٰ) کا سفر کیا اور پچپن حج کیے۔
سب سے پہلا حج سولہ سال کی عمر میں والد صاحب کی معیت میں
۹۶ھ میں کیا، اس سفر میں صحابی رسول حضرت
عبداللہ بن الحارث سے ملاقات کی سعادت بھی حاصل ہوئی اور ان کی
زبان مبارک سے یہ ارشاد بھی سنا: ”من تفقہ فی
دین اللّٰہ، کفاہ اللّٰہ ہمہ ورزقہ من حیث لا یحتسب“(۲)
شرفِ تابعیت
اسی وجہ سے باتفاق ائمہ محدثین
آپ تابعی ہیں، لہٰذا آپ اللہ کے قول: ”والذین
اتبعوہم باحسان رضی اللّٰہ عنہم ورضوا عنہ“ میں داخل ہیں؛کیوں کہ
حج کے مسلسل سفروں میں حضراتِ صحابہ سے استفادے کا موقع
ملا؛ اسی کے ساتھ ساتھ آپ کو حج کے سفروں میں تدریس کے مواقع بھی
فراہم ہوئے، جہاں لوگ آپ سے فیض حاصل کرنے کے لیے ٹوٹ پڑتے تھے؛ اسی
وجہ سے آپ کے شاگردوں کی تعداد، حد شمار سے باہر ہے، جب کہ آپ کے اساتذہ و شیوخ
کی تعداد چارہزار تک ہے۔(۴)
نصاب تعلیم
اس زمانے میں نصابِ تعلیم،
قرآن واحادیث ہی تھا، بلکہ اس وقت علم سے مراد قرآن و حدیث ہی
کا علم ہوتا تھا۔ چانچہ خلف بن ایوب فرماتے ہیں:
”صار
العلم من اللّٰہ تعالیٰ الی محمد صلی اللّٰہ
علیہ وسلم، ثم الی اَصحابہ، ثم الی التابعین، ثم صار الی
ابی حنیفة وأصحابہ“(۵) (یعنی ”علم خدا کی طرف سے
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم
کے پاس آیا، پھر صحابہ میں تقسیم ہوا، پھر تابعین میں،
اس کے بعدامام ابوحنیفہ اوران کے اصحاب میں آیا“) اس قول کو نقل
کرنے کے معاً بعد علامہ ظفر تھانوی لکھتے ہیں کہ
: ”ولا یخفیٰ أن العلمَ في
ذٰلک الزمان، لم یکن الا علم الحدیث والقرآن“ (یعنی یہ بات واضح
رہے کہ اس وقت علم صرف اور صرف قرآن و حدیث ہی کا علم تھا)
لہٰذا اس وقت کا سب سے بڑا عالم وہی مانا جاتا تھا جو قرآن و حدیث
کا عالم ہو،اسی وجہ سے حضرت سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں
کہ : ”امام ابوحنیفہ علم ”حدیث“ و” فقہ“ میں اعلم الناس ہیں۔(۶)
اور خلف بن ایوب نے ابھی اوپر
آپ کو عالم قرآن و حدیث ثابت کردیا، تو جس کا نصاب تعلیم ہی
قرآن و حدیث ہو، وہ کیسے ”یتیم فی الحدیث“
ہوسکتا ہے؟!
علم حدیث میں سبقت
امام صاحب اپنے زمانے کے تمام محدثین
پر فائق تھے درادراکِ حدیث؛ اسی لیے آپ کے معاصر اور مشہور محدث
امام مسعر بن کدام فرماتے ہیں: ”طلبتُ مع
أبي حنیفة الحدیثَ فَغَلَبَنَا الخ“ کہ ”میں نے امام ابوحنیفہ کے
ساتھ ”حدیث“ کی تحصیل کی وہ ہم سب پر غالب رہے“(۷)
آپ کی محدثیت اور مہارتِ حدیث پر شہادتیں
علم حدیث کے سلسلے میں، جس
قدر آپ معرفت رکھتے ہیں اور جس قدر آپ نے اس سے حصہ وافر پایا ہے، اس
کے جان لینے کے بعد کوئی انصاف پسند عالم، یہ نہیں کہہ
سکتا کہ: ”ولم یعدہ أحد من المحدثین“ (حضرت امام صاحب کو کسی نے بھی
محدثین کی فہرست میں شمار نہیں کیا) چوں کہ آپ کی
محدثیت کا بے شمار لوگوں نے بار بار اعتراف کیا ہے، چند اقوال ملاحظہ
فرمائیں:
۱- امام ذہبی نے آپ کا شمار
”حملة الحدیث“ (حاملین حدیث) میں کیا
ہے۔(۸)
۲- ابن خلدون نے آپ کو ”کبار
المجتہدین فی علم الحدیث“ (علم حدیث میں بڑا مجتہد)
کہا ہے۔(۹)
۳- حضرت امام ابویوسف فرماتے ہیں: ”میں نے امام ابوحنیفہ سے زیادہ جاننے والا نفس حدیث کو، کسی کو نہیں
دیکھا اور نہ کوئی ان سے زیادہ تفسیر حدیث کا عالم،
میری نظر سے گزرا“(۱۰)
۴- حضرت سفیان بن عیینہ
فرماتے ہیں: ”اول من صیَّرني محدثا أبوحنیفة“ ”مجھے محدث بنانے
والا، سب سے پہلا شخص، امام ابوحنیفہ کی ذات اقدس ہے۔ (اِنجاء
الوطن،ص:۳۱)
۵- شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ
نے بھی آپ کو محدثین کی فہرست میں شمار کیا
ہے۔(۱۱)
۶- حضرت عبداللہ بن المبارک فرماتے
ہیں کہ: اگر مجھے ابوحنیفہ اور سفیان کا شرف حاصل نہ ہوا ہوتا،
تو میں بدعتی ہوجاتا۔(۱۲)
۷- شیخ الاسلام علامہ ابن
عبدالبر مالکی، تحریر فرماتے ہیں کہ : ”رویٰ
حماد بن زید عن أبي حنیفة أحادیثَ کثیرة“ (۱۳) (حماد بن زید نے
امام ابوحنیفہ سے بہت سی حدیثیں روایت کی ہیں)
اگر حضرت امام صاحب ”محدث“ نہیں تھے ، تو احادیث کثیرہ کا کیا
مطلب ہوگا؟ اور جب وہ ”قلیل الحدیث“ تھے اور ان کے پاس زیادہ حدیثیں
بھی نہ تھیں، تو حماد بن زید نے، ان سے روایاتِ کثیرہ
اور احادیث کثیرہ کس طرح لیں؟
۸- آپ کی مہارت و تبحر حدیث
کا اندازہ اس سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے کہ امام احمد بن حنبل اورامام بخاری کے استاذِ حدیث،
شیخ الاسلام حافظ ابو عبدالرحمن مقری، جب امام صاحب سے کوئی حدیث
روایت کرتے، تو اِس لفظ کے ساتھ روایت کرتے کہ : ”أخبرَنا
شاہنشاہ“(۱۴) (ہمیں علم حدیث کے شہنشاہ نے خبردی)
اندازہ فرمائیے ! ایک محدث کامل، امام صاحب کو حدیث کا ”بادشاہ“
ہی نہیں ، بلکہ ”شاہنشاہ“ کہہ رہے ہیں؛ جس سے علم حدیث میں
تبحر ظاہر ہے، جن لوگوں نے آپ کو محدثین میں شمار نہیں کیا
ہے، ان کی بات قابل قبول نہیں۔(۱۵)
حافظ حدیث ہونے پر شہادتیں
یحییٰ بن معین،
علی ابن مدینی، سفیان ثوری، عبداللہ بن المبارک اور
حافظ ابن عبدالبر مالکی وغیرہ حضراتِ محدثین کا قول ثابت کرتا
ہے کہ آپ ”حافظ حدیث“ بھی ہیں،جیسا کہ ”تذکرة الحفاظ“ سے
معلوم ہوتا ہے؛ کیوں کہ علامہ ذہبی نے آپ کو ”حافظ الحدیث“ کہا
ہے(۱۶)، اگر آپ حافظ حدیث نہ ہوتے، تو امام ذہبی جیسا
شخص (جو مذہباً شافعی ہیں) امام ابوحنیفہ کو ”حافظ حدیث“
نہ کہتے۔ اسی بات کا اعتراف، حافظ یزید بن ہارون نے اپنے
ان الفاظ میں کیا ہے کہ : ”کان أبو
حنیفة نقیًا ․․․ أحفظَ
أہل زمانہ“
(۱۷) (امام ابوحنیفہ پرہیز گار ․․․ اور
اپنے زمانے کے بہت بڑے حافظِ حدیث تھے) ابن حجر مکی فرماتے ہیں
کہ : ”علامہ ذہبی وغیرہ نے امام ابوحنیفہ کو حفاظ حدیث کے
طبقے میں لکھا ہے اور جس نے ان کے بارے میں یہ خیال کیاہے
کہ وہ حدیث میں کم شان رکھتے تھے، تو اس کا یہ خیال یا
تو تساہل پر مبنی ہے یا حسد پر۔(۱۸) حافظ محمد یوسف
شافعی لکھتے ہیں کہ : ”امام ابوحنیفہ بڑے حفاظِ حدیث اور
ان کے فضلاء میں شمار ہوتے ہیں“ (مقام ابی حنیفہ، ص:
۱۲۰)
امام صاحب اور جرح و تعدیل
جس طرح امام بخاری اور ابن معین
وغیرہ کے اقوال کو محدثین، اپنی کتابوں میں بہ طور احتجاج
پیش کرتے ہیں، اسی طرح امام صاحب کے اقوال کو بھی پیش
کرتے ہیں؛ چناں چہ امام ترمذی فرماتے ہیں:
”حدثنا محمود بن غیلان عن جریر
عن یحیی الحمانی سمعت أبا حنیفة یقول: ما رأیت
أکذب من جابر الجعفي ولا أفضل من عطاء“(۱۹) (ترجمہ ظاہر ہے) اسی طرح علامہ ابن
حزم اپنی مشہور کتاب ”المحلی في شرح المجلی“ میں لکھتے ہیں:
”جابر الجعفي کذاب، و أول من شہد علیہ
بالکذب أبوحنیفة“ (جابر جعفی کذاب ہے اور سب سے پہلے جس نے اس کے کاذب ہونے کی
شہادت دی وہ امام ابوحنیفہ ہیں) (انجاء الوطن، ص:
۳۱)
ان عبارات کی روشنی میں
یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ امام صاحب کے اقوال ”جرح و تعدیل“
کے باب میں، اصح طریقے پر معتبر ہیں، کتب رجال: ”تہذیب
الکمال“ (از امام مزی) ”تہذیب التہذیب“ (از امام ذہبی)
اور ”تذہیب التہذیب“ (از حافظ ابن حجر) میں ”جرح و تعدیل“
سے متعلق امام صاحب کے مزید اقوال دیکھے جاسکتے ہیں۔
کثیر الحدیث ہونے پر شہادتیں
تمام کبار محدثین کے نزدیک یہ
بات محقق ہے کہ آپ اجلہٴ محدثین میں ہونے کے ساتھ ساتھ، ”کثیر
الحدیث“ بھی ہیں؛ لہٰذا ذیل میں چند اقوال پیش
کیے جارہے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ”کثیر الحدیث“ ہیں؛
چناں چہ ملا علی قاری ابن سماعہ سے نقل کرتے ہیں کہ: ”امام
ابوحنیفہ نے اپنی (املائی) تصانیف میں ستر ہزار سے
کچھ اوپر حدیثیں بیان کی ہیں اور چالیس ہزار
سے ، ”کتاب الآثار“ کا انتخاب کیا ہے۔(۲۰) اسی طرح یحییٰ
بن معین فرماتے ہیں: ”کان النعمان جمع حدیث بلدہ کلہ“ (امام صاحب نے اپنے شہر کوفہ (علم حدیث
کا مرکز و مرجع ہے) کی تمام حدیثیں جمع کرلی تھیں)
پھر خود حضرت امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں
کہ : ”عندي صنادیق الحدیث ، ما
أخرجت منہا الا الیسیر الذي ینتفع بہ“ (۲۱) (میرے پاس حدیث
کے بہت سے صندوق بھرے ہوئے موجود ہیں مگر میں نے ان میں سے تھوڑی
حدیثیں نکالی ہیں جن سے لوگ نفع اٹھائیں) یہاں
لفظ ”صنادیق“ جمع کا ہے، جس سے واضح ہے کہ آپ کثیر الحدیث ہیں،
علامہ ظفر احمد عثمانی نے ”کثیر الحدیث“ سے متعلق بہت سے اقوال
پیش کیے ہیں، تفصیل کے لیے دیکھیں
مقدمہ اعلاء السنن۔
آپ امام بخاری کے ہم پلہ ہیں
باتفاقِ محدثین عظام (جس میں
خصوصیت کے ساتھ سفیان ثوری، امام شعبہ، ابن قطان، امام
عبدالرحمن مہدی اور امام احمد بن حنبل، خصوصیت سے قابل ذکر ہیں)
متون حدیث کی تعداد چار ہزار چار سو ہے: ”ان جملة
الأحادیث المسندة عن النبی صلی اللّہ علیہ وسلم یعنی
الصحیحة بلا تکرار، أربعة آلاف و أربع مائة حدیث“ (احادیث صحیحہ، جو بلا
تکرار آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم سے روایت کی گی ہیں، ان کی تعداد چار ہزار چار
سو ہے) اور یہ بات مسلم ہے کہ آپ چار ہزار متون احادیث کے حافظ
تھے۔
چنانچہ امام صدرالائمہ مکی فرماتے ہیں
کہ: ”کان أبوحنیفة یروي أربعة
آلافِ حدیث ، ألفین لحماد، وألفین لسائر المشیخة“(۲۲) (یعنی امام
صاحب نے چار ہزار حدیثیں روایت کی ہیں، دو ہزار صرف
حماد کے طریق سے اور دو ہزار باقی شیوخ سے) معلوم یہ ہوا
کہ اگر تعدد طرق و اسانید اور تکرار سے صرفِ نظر کرلی جائے تو چار
ہزار حدیثیں امام صاحب سے مروی ہیں اوراگر تعددِ طرق کا
لحاظ کیاجائے، تو ستر ہزار سے بھی آپ کی مرویات کی
تعداد بڑھ جاتی ہے، جن کا تذکرہ آپ نے اپنی املائی تصانیف
میں کیا ہے؛ چوں کہ امام صاحب اور بعد کے محدثین (مثلاً امام
بخاری) کے درمیان ۱۱۴/ سال کے طویل عرصے
میں، ایک حدیث کو سینکڑوں، بلکہ ہزاروں اشخاص نے روایت
کیاہوگا (جس سے حدیث کی تعداد بدل جاتی ہے فی
اصطلاح المحدثین) اس لیے دونوں کے درمیان جو لاکھوں اور ستر
ہزار حدیثوں کا فرق ہے، وہ دراصل اسانید کی تعداد کا فرق ہے؛
ونہ صحیح بخاری کے مکررات نکال کر، احادیث کی تعداد، حافظ
عراقی نے چار ہزار بتائی ہے(۲۳)، امام نووی نے صحیح
مسلم کی تعداد کے بارے میں لکھا ہے: ”ومسلم
باسقاط المکرر نحو أربعة آلاف“(۲۴) اور تقریباً یہی تعداد
”سنن ابی داؤد“ و ”ابن ماجہ“ وغیرہ کے متعلق
ہے۔(۲۵) غرضیکہ امام صاحب، ان حضرات محدثین کے
”متونِ احادیث“ میں بالکل ہم پلہ ہیں؛ بلکہ تعدد سند میں
بھی آپ،امام بخاری کے تقریباً برابر ہی ہیں؛ چنانچہ
آپ نے اپنے بیٹے حماد کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا تھا: ”جمعتہا من
خمس مائة ألف حدیث(۲۶) (الوصیة، ص:۶۵)؛ لہٰذا معلوم ہوا کہ
امام صاحب پر ”قلیل الحدیث“ ہونے کا الزام غلط ہے۔ اس سے واضح
ہوگیا کہ جس طرح ، طلوع آفتاب سے رات کی تمام تاریکیاں
ختم ہوجاتی ہیں، اسی طرح آپ سے ”قلیل الحدیث“ ہونے
کا الزام ختم ہوجاتا ہے۔
قلتِ روایت کے اسباب
مخالفین اورحاسدین، ”قلتِ روایت“
کی آڑ میں، امام صاحب کی حدیث دانی اور فقہی
قدر و منزلت کو مجروح کرکے ”حنفیت“ کا راستہ روکنے کی بے جا کوشش کرتے
ہیں مگر ع
پھونکوں
سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
اس سلسلے میں واضح رہے کہ قلت روایت،
کوئی عیب نہیں اور نہ یہ کوئی عار کی بات ہے
اور نہ قلت روایت، قلت علم حدیث کو مستلزم ہے؛ چنانچہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود کی مرویات
کی تعداد ایک ہزار سے کم ہی ہے؛ جبکہ ان سے کم درجہ کے صحابی کی تعداد حضرت ابوبکر و عمر وغیرہ سے کہیں زیادہ ہے، تو کیا اب یہ
کہہ دینا چاہیے کہ حضرت ابوبکر و عمر زیادہ بڑے محدث نہیں تھے؟ نہیں ہرگز نہیں؛
بلکہ یہ حضرات نقل روایات میں، حد درجہ احتیاط کرتے تھے،
کہ مبادا نقل روایت میں کوئی فرق ہوجائے؛ اسی لیے ان
کبارِ صحابہ نے، حدیث کے اپنے وافر معلومات کو مسائل اور فتاویٰ
کی صورت میں بیان کیا۔ امام صاحب بھی انہی
کے نقش قدم پر چلے اورحدیث کے اپنے وافر معلومات کو استنباط میں لگایا،(۲۷)
اسی کو حافظ محمدیوسف صالحی شافعی یوں بیان
فرماتے ہیں: ”وانما قلَّت الروایة عنہ، لاشتغالہ
بالاستنباط، کما قلَّت روایة أبی بکر وعمر “ (۲۸) قلت
کی دوسری وجہ، ابن خلدون اس طرح لکھتے ہیں:
”والامام أبوحنیفة انما قلت روایتہ،
لما اشتد فی شروط الروایة والتحمل“(۲۹) تیسری وجہ
قلت کی یہ ہے کہ آپ صحابہ کی طرح غیر
احکامی احادیث بیان کرنے میں حددرجہ احتیاط کرتے
تھے؛ کیوں کہ حضرت عمر نے اسی طرح
کا ارشاد فرمایا ہے۔ اور یہی نظریہ امام مالک کا بھی
ہے ، فرماتے ہیں: ”اگر میں لوگوں کو، وہ تمام روایت کروں جو میں
نے سنیں،تو میں احمق ہوں گا، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں
لوگوں کو گمراہ کررہا ہوں۔(۳۰) غرضیکہ امام صاحب قلت روایت
میں، صحابہ کے ہی نقش قدم پر چلے ہیں؛ مگر یہ فضیلت،
مخالفین کے لیے وجہ حسد بن گئی، جب کچھ نہ بن پڑا تو ”قلت روایت“
کا الزام دھردیا، فیا للعجب!
اہل الرائے اور اہلِ حدیث
”حدیث بیانی“ اور ”حدیث
دانی“ دو الگ الگ فن ہیں، تمام ”رواة حدیث“ (اہل حدیث)
”حدیث بیاں“ تو ہیں؛ مگر ضروری نہیں کہ وہ ”حدیث
داں“ بھی ہوں؛ (کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان میں
”رب حامل فقہ، غیر فقیہ (۳۱) کے ذریعے فرق بتلادیا
ہے) البتہ ”فقہاء“ (اہل الرائے)،” حدیث داں“ ضرور ہوتے ہیں۔
توجو ”حدیث دانی“ کے ساتھ ساتھ ”حدیث بیانی“ میں
بھی مہارت رکھتا ہو، اس پر ”اہل الرائے“ کا اطلاق ہوتا ہے؛ اسی لیے
محدثین نے آپ کو ”اہل الرائے“ کہا ہے،جو بلا ریب و شک صفتِ حمیدہ
ہے؛ جس کی دلیل یہ ہے کہ محدثین اس کا اطلاق، صحابہ وغیرہ پر بھی کرتے ہیں؛ چنانچہ کہتے ہیں:
”مغیرة بن شعبة کان من أہل الرأي، و
ربیعة بن عبدالرحمن کان من أہل الرأي“(۳۲) یعنی یہ
دونوں حضرات اہل الرائے میں سے ہیں) مگر غیرمقلدین نے
”اہل الرائے“ کو صفتِ قبیحہ اور ”جرح و طعن“ پر محمول کیا ہے، جو محدثین
کی مراد کے خلاف ہے؛ اگر یہ لفظ ”جرح و طعن“ کے لیے ہے، تو کیا
حضرت مغیرہ بن شعبہ مجروح ہوں گے؟!
جبکہ تمام صحابہ عدول ہی ہیں، کوئی مجروح نہیں ہوسکتا
(الصحابة کلہم عدول) کیا حضرت ربیعہ بھی مجروح ہوں گے؟ٍ جبکہ ان
سے تمام ائمہ حدیث نے روایت لی ہیں؟ ! نہیں ہرگز نہیں،
بلکہ محدثین، لفظِ ”اہل الرائے“ کا اطلاق اسی پر کرتے ہیں جو
”حدیث بیانی“ کے ساتھ ”حدیث دانی“ میں بھی
ماہر ہو، یہی فرق ہے ”اہل الرائے“ اور ”اصحاب الحدیث“ میں
کہ ”اہل الرائے“ لفظ انسان“ کی طرح خاص ہے اور ”اصحاب الحدیث“ لفظ ”حیوان“
کی طرح عام ہے، فبینہما نسبة عموم وخصوص مطلقاً اور چوں کہ خاص افضل
ہوتا ہے؛ اس لیے محدثین کے یہاں ”اہل الرائے“ کا درجہ بڑھا ہوا
ہے؛ اسی لیے محدثین، فقہاء کو اپنے سے آگے رکھتے تھے، جس کا
اندازہ مندرجہ ذیل اقوال سے ہوتا ہے:
حضرت امام وکیع بن الجراح لکھتے ہیں:
”حدیث یتداولہ الفقہاء خیر من أن یتداولہ الشیوخ“
(حدیث فقہاء کو ہاتھ لگے یہ اس سے بہتر ہے کہ شیخ الحدیث
کے ہاتھ لگے)(۳۳) محدثِ عظیم حضرت اعمش فرماتے ہیں : یامعشرالفقہاء!
”أنتم الأطبا“ ونحن ”الصیادلة“(۳۴) (اے گروہ فقہاء طبیب تم ہو، ہم تو
صرف دوائیں لگائے بیٹھے ہیں)
حضرت امام ترمذی فرماتے ہیں:
”وکذلک قال الفقہاء، وہم أعلم بمعانی
الحدیث“(۳۵) (اسی طرح فقہاء نے کہا ہے اور وہ حدیث کے معنی
کو زیادہ بہتر جاننے والے ہیں)
ان اقوال سے معلوم ہوا ”اصحاب الرائے“
بہرحال محدث ہوتے ہیں (اسی لیے صاحب ہدایہ نے کہا ہے کہ
فقیہ کے لیے حدیث دانی شرط ہے)(۳۶) تو معلوم
ہوا کہ اس کا اطلاق آپ کی مہارتِ حدیث پر دال ہے۔
قیاس پر حدیث ضعیف کو مقدم کرنا، عظمت حدیث کی
دلیل
امام صاحب کے اہم اصول میں سے ہے کہ
”حدیثِ ضعیف“ اور ”مرسل حدیث“ قیاس سے افضل ہے، جس سے آپ
کی عظمت حدیث کا بین ثبوت ملتا ہے، اسی قاعدے پر ان کے
مذہب کی بنیاد ہے، اور اسی قاعدے کی وجہ سے : (۱)
رکوع سجدے والی نمازمیں قہقہہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جبکہ جنازے کی
نماز میں نہیں ٹوٹتا۔ (۲) نبیذ تمر سے سفر میں
وضو ہوجاتا ہے۔ (۳) دس درہم سے کم کی چوری پر، چور کا
ہاتھ نہیں کٹتا۔ (۴) حیض کی اکثر مدت دس دن ہوتی
ہے۔ (۵) جمعہ کی نماز میں مصر کی قید لگانا
اور کنویں کے مسئلے میں قیاس نہ کرنا، یہ سب وہ مسائل ہیں
جن میں قیاس کا تقاضا کچھ اور تھا؛ مگر ”احادیثِ ضعیفہ“
کے ہوتے ہوئے قیاس کو ردی کی ٹوکری میں رکھ دیا۔(۳۷)جس
سے علم حدیث کے تعلق سے آپ کی غایت شغل کا اندازہ ہوتا ہے؛ اسی
پر بس نہیں؛ بلکہ قیاس کی چار قسموں (قیاس موٴثر، قیاس
مناسب، قیاس شبہ، قیاس طرد) میں سے، صرف قیاس موٴثر
(اور ایک قول کے مطابق قیاس مناسب بھی) امام صاحب کے یہاں
معتبر ہے، بقیہ قسمیں باطل ہیں؛ (جبکہ قیاس کی تمام
اقسام کو حجت گرداننے اور احادیث ضعیفہ و مرسلہ کو غیر معتبر
ماننے والے دوسرے حضرات مثلاً: حضرت امام شافعی رحمہ اللہ ہیں)(۳۸)
اسی لیے تعجب ہے ان لوگوں پر جو آنکھ بند کرکے امام صاحب پر یہ
الزام لگاتے ہیں کہ آپ قیاس وغیرہ کو حدیث پرمقدم کرتے ہیں
اور حدیث کی مخالفت کرتے ہیں؛ حالاں کہ حقیقت وہ ہے جو
ابن قیم نے کہا : ”فتقدیم الحدیث الضعیف و
آثار الصحابة علی القیاس والرأي قولہ (ابی حنیفة) وقول
أحمد و علی ذلک بنی مذہبہ کما قدَّم حدیثَ القہقہة مع ضعفہ علی
القیاس والرأي“(۳۹) الخ یہی وہ عادتِ مستمرہ ہے جس کی وجہ سے
کبار محدثین فقہ حنفی کے سایے میں ملیں گے۔
محدثین فقہ حنفی کے سایے میں
حدیث کے ساتھ والہانہ لگاؤ ہی
کے سبب، آپ کا بیان فرمودہ ہر مسئلہ، قرآن و حدیث کے مطابق ہے،آج تک
کوئی یہ ثابت نہ کرسکا کہ آپ کا فلاں مسئلہ قرآن وحدیث کے خلاف
ہے، اسی مہارتِ حدیث کی وجہ سے کبار محدثین نے آپ کے بیان
کردہ مسائل و فتاویٰ کے سامنے،اپنا سر تسلیم خم کردیا؛
چنانچہ بہت سے چوٹی کے محدثین اورماہرین اسماء الرجال، امام
صاحب کے قول کے مطابق ہی فیصلے دیتے تھے، جن میں سے امام
وکیع(۴۰) ابن الجراح، ماہر اسماء الرجال امام یحییٰ
بن سعید القطان(۴۱) اور امام بخاری کے استاذ (حضرت یحییٰ
بن بکیر) کے استاذ امام لیث(۴۲) بن سعد، خاص طور سے قابل
ذکر ہیں اور حضرت مولانا مفتی سید مہدی حسن صاحب سابق صدر
مفتی دارالعلوم دیوبند نے کم و بیش چالیس کبارِ محدثین
کا ذکر کیا ہے جو خالص حنفی تھے،(۴۳) جبکہ حضرت موصوف ہی
نے اپنی کتاب کشف الغمہ میں نمونہ کے طور پر چار ایسے نام ذکر کیے
ہیں جنھوں نے دوسرے مذاہب چھوڑ کر حنفی مذہب اختیار کرلیا
مثلاً: (۱)”امام طحاوی“ یہ پہلے شافعی تھے، پھر حنفی
بن گئے، (۲) امام احمد بن محمد بن محمد بن حسن تقی شمنی: یہ
پہلے مالکی تھے، پھر حنفی مذہب کو اختیار کیا، (۳)
تیسرے علامہ عبدالواحد بن علی العبکری: اول یہ حنبلی
تھے، اس کے بعد حنفی مذہب اختیار کیا، (۴) چوتھے علامہ یوسف
بن فرغلی البغدادی سبط ابن الجوزی: پہلے یہ حنبلی
مذہب رکھتے تھے، پھر حنفی مذہب اختیار کیا۔(۴۴)
(تفصیل دیکھئے کشف الغمہ بسراج الامہ، ص: ۱۱۴)
یقینا یہ اقتباس واضح
دلیل ہے کہ حدیث سے آپ کا شغف اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ ”فقہ حنفی“
میں بھی حدیث ہی حدیث ہے، تبھی تو مذکورہ
کبار محدثین آپ کی فقہ کی طرف مائل ہوئے؛ اسی لیے
بہت سے اکابرین مثلاً عبداللہ بن المبارک فرماتے تھے کہ ”ابوحنیفہ کی
رائے“ کا لفظ مت کہو، بلکہ تفسیر و حدیث کہو۔“ (۴۵)
آپ کی تصنیفات
آپ نے تدریس و تدوین فقہ کے
ساتھ، فقہ کے ابواب پر مشتمل حدیثوں کا مجموعہ بھی، صحیح اور
معمول بہا روایتوں سے منتخب فرماکر مرتب کیا، جس کا نام ”کتاب الآثار“
ہے، یہ دوسری صدی کے ربع ثانی کی تالیف ہے،
اس کتاب سے پہلے حدیث نبوی کے جتنے مجموعے تھے، ان کی ترتیب
فنی نہیں تھی؛ مگر یہ پہلی تصنیف ہے جس نے
بعد کے محدثین کے لیے ترتیب و تبویب کی شاہراہ قائم
کردی۔(۴۶) واضح رہے کہ اس کا انتخاب امام صاحب نے چالیس
ہزار احادیث سے کیا ہے۔ (انتخب ابوحنیفة الآثار من أربعین
ألف حدیث)(۴۷)
مسانید
حدیث کی دوسری کتابوں کی
طرح ”کتاب الآثار“ کی بھی علمی خدمت کی گئی؛ چنانچہ
امام صاحب کے ہر استاذ کی مرویات کو یکجا کرکے،اس کو ”مسند ابی
حنیفہ“ کے نام سے موسوم کیاگیا۔(۴۸) جس کی
تعداد باتفاق محدثین، پندرہ ہیں، جبکہ محمد بن یوسف صالحی
شافعی نے سترہ ذکر کیے ہیں۔(۴۹)
جامع المسانید
امام ابوالموید محمد بن محمود
خوارزمی نے، تمام مسانید کو یکجا جمع کرکے، ”جامع المسانید“
نام رکھا ہے، اور مکررات کو حذف کرکے فقہی ابواب پر مرتب کیا
ہے۔(۵۰)
سترہ حدیث اور ابن خلدون
مذکورہ تصریحات سے معلوم ہوا کہ آپ
کثیر الحدیث ہیں؛ مگر آپ کے حاسدین ”قلیل الحدیث“
ثابت کرنے کے لیے موٴرخِ اسلام، انصاف پسند، علامہ ابن خلدون کی منقول سترہ روایت کا حوالہ دیتے ہیں،
تو عارضی طور پر ہم بھی حیران و ششدر رہ جاتے ہیں کہ اتنے
بڑے اسلامی موٴرخ، امام صاحب جیسے عظیم محدث اور حافظِ حدیث
کے حق میں صرف سترہ ہی روایت کے قائل ہیں؟! اس لیے
حقیقت سمجھنی چاہیے۔
پس منظر اورحقیقت
علامہ ابن خلدون کی منقول سترہ روایت
کا پس منظر یہ ہے کہ امام محمد نے ”موٴطا امام محمد“ کی تمام
احادیث کو، امام مالک سے ہی روایت کیا ہے؛ کیوں کہ
انہوں نے خاص طور پر صرف امام مالک ہی کی روایات بیان کرنے
کا التزام کیا ہے؛ لیکن موقع بہ موقع کہیں کہیں امام ابوحنیفہ و ابویوسف کی روایتیں
بھی ضمناً آگئی ہیں، جن کی تعداد سترہ یا ان کے لگ
بھگ ہے،(۵۱) تو بعض لوگ آپ کے بقیہ تمام ذخیرئہ احادیث
سے قطع نظر کرکے حسداً یہ کہہ بیٹھے کہ : آپ ”قلیل
البضاعة فی الحدیث“ تھے تبھی تو سترہ حدیثیں ہی مروی
ہیں۔ اس زبردست غلطی کا علامہ ابن خلدون نے اس طرح ازالہ کیا
ہے کہ : ”امام صاحب کے حوالے سے ”موٴطا امام محمد“ میں جو صرف سترہ حدیثیں
مروی ہیں، ان سے بغض و تعصب رکھنے والوں نے یہ سمجھ لیا
ہے کہ آپ ”قلیل البضاعہ فی الحدیث“ تھے اورحدیث میں آپ کا کل
سرمایہ اتنا ہی تھا، حالانکہ سترہ روایت کا نظریہ، سرے سے
باطل ہے؛ بلکہ سترہ کے واسطے سے ”قلیل البضاعہ فی الحدیث“ کا نظریہ، جو ان کی طرف
منسوب کیا جاتا ہے تقوُّل اور جھوٹ پر مبنی ہے اور راہِ راست سے بہت
دور ہے، تو ابن خلدون کا مقصد امام صاحب پر لگائے گئے الزام کو دفع کرنا ہے، نہ یہ
کہ آپ کے لیے اسے ثابت کرنا ہے؛ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ابن
خلدون کا مکمل حوالہ و عبارت نقل کردی جائے تاکہ اصل حقیقت سامنے
آسکے، ملاحظہ فرمائیں: ابن خلدون فرماتے ہیں:
”واعلم ایضاً
أن الأئمة المجتہدین تفاوتوا في الاکثار من ہذہ الصناعة والاقلال، فأبوحنیفة
رضي اللہ تعالیٰ عنہ یقال: بلغت روایتہ الی سبعة
عشر حدیثًا أو نحوہا، ومالک رحمہ اللہ تعالیٰ انما صح عندہ ما
في الکتاب الموٴطا، وغایتہا ثلاث مائة حدیث، أو نحوہا، وأحمد بن
حنبل رحمہ اللہ في مسندہ خمسون ألف حدیث، ولکل ما أداہ الیہ اجتہادہ فی
ذلک․ وقد تقول
بعض المبغضین المتعصبین الی أن: ”منہم من کان قلیل
البضاعة فی الحدیث“ فلہذا قلت روایتہ“(۵۲)
ولا سبیل
الی ہذا المعتقد في کبار الأئمة․ (مقدمہ ابن خلدون،
ص:۴۴۴، مصر)
”اور تو یہ بھی جان لے کہ
ائمہ مجتہدین، حدیث کے فن میں متفاوت رہے ہیں، کسی
نے زیادہ حدیثیں بیان کی ہیں کسی نے
کم، سو امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہا جاتا ہے، کہ
ان کی روایتیں صرف سترہ یا ان کے لگ بھگ ہیں اور
امام مالک سے جو روایتیں ان کے یہاں صحیح ہیں،
وہ وہی ہیں جو موٴطا میں درج ہیں اور امام احمد بن
حنبل کی مسند میں پچاس ہزار احادیثیں ہیں
اور ہر ایک نے اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق اس میں سعی کی
ہے۔
اور بعض بغض و کج روی رکھنے والوں
نے اس جھوٹ پر کمر باندھ لی ہے کہ ”ائمہ مجتہدین میں سے جن سے
کم حدیثیں مروی ہیں وہ محض اس لیے کہ ان کا سرمایہ
ہی اس فن میں اتنا ہے لہٰذا ان کی روایتیں بھی
کم ہیں“؛ حالانکہ ان بڑے بڑے اماموں کی نسبت ایسا خیال
کرنا راہِ راست سے دوری ہے۔
یہ عبارت چیخ چیخ کرکہہ
رہی ہے کہ امام صاحب پر مذکورہ الزام سرے سے ہی باطل ہے اور تقوُّل و
جھوٹ پر مبنی ہے، خاص طو ر پر، خط کشیدہ عبارت میں، نظر عمیق
سے غور کرنے سے حاسدین کے جھوٹ کا پول کھل جاتا ہے۔
لطیفہٴ تھانوی
اس موقع سے حضرت تھانوی نے ایک لطیفہ ذکر کیا ہے کہ (سترہ کی)
تردید کے بغیر بھی، اس سے امام صاحب کی منقبت نکلتی
ہے نہ کہ منقصت، کہ امام صاحب کی فہم اتنی عالی تھی کہ
صرف سترہ حدیثوں سے اس قدر مسائل استنباط کیے کہ دوسرے ائمہ، باوجود
لاکھوں احادیث کے حافظ ہونے کے بھی، ان کے برابر مسائل مستنبط نہ
کرسکے، اس سے زیادہ فہم کی کیا دلیل ہوگی۔(۵۳)
آپ پر ہوئے اعتراض کی حقیقت
آپ کی شرفِ تابعیت (جو آپ کو
اپنے معاصرین میں ممتاز بنائے ہوئے ہے) اور صحیح مسلم
(ج:۲، ص: ۳۱۲) پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت
ہی، تمام اعتراضات کا مسکت جواب ہے؛ تاہم منصف مزاج حضرات نے تمام اعتراضوں
کو ”بکواس“ کہہ کر، آپ کی جلالت شان پر مہر ثبت کردی ہے؛ چنانچہ شیخ
عبدالوہاب شعرانی فرماتے ہیں: ”ولا عبرة
لکلام بعض المتعصبین في حق الامام، بل کلام من یطعن في ہذا الامام،
عند المحققین یشبہ الہذیانات“(۵۴) (امام ابوحنیفہ
کے حق میں بعض متعصبین کے کلام کا اعتبار نہیں؛ بلکہ جو شخص
امام صاحب پر طعن کرتا ہے تو اس کا کلام بکواس کے مشابہ ہے عند المحققین)
آخری بات
خلاصہ یہ ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ کا ”علم حدیث“ میں بہت اونچا مقام ہے؛ چنانچہ آپ صرف
محدث ہی نہیں بلکہ امامِ حدیث، حافظ حدیث اور صاحب ”جرح و
تعدیل“ ہونے کے ساتھ ساتھ کثیر الحدیث ہونے میں امام بخاری وغیرہ کے ہم پلہ ہیں، نیز آپ پر مخالفین
کی جانب سے، خصوصاً حدیث کے تعلق سے کیے گئے اعتراضات، محض حسد
و عناد پرمبنی ہیں،(۵۵) جو بازاری افسانوں اور
بکواس کلاموں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ (خدایا!
امام صاحب کو غریقِ رحمت فرما،آمین یا رب العالمین، بجاہ
سید المرسلین)
اللّٰہم
وتغمَّد امامنا بعفوک، واجعلہ فی سعة رحمتک، والحمد للّٰہ أولاً و
آخرا، والصلاة والسلام علی أفضل رسلہ دائماً متواتراً․
$ $ $
حوالے
(۱) منہاج
السنة، ج:۴، ص: ۱۳۹، بہ حوالہ: دفاع امام ابوحنیفہ،
ص: ۴۲، و مقام ابی حنیفہ، ص: ۱۷ (اردو)
(۲)
جامع علم البیان، بہ حوالہ: دفاع امام ابوحنیفہ، ص:
۶۶۔
(۳) انجاء الوطن مقدمہ ”اعلاء السنن“
(۴)
صدرالائمہ، ج:۱، ص: ۲۵۴
(۵) انجاء
الوطن۔
(۶)
دفاع امام ابوحنیفہ، ص: ۹۰ (اردو)
(۷) دفاع
امام ابوحنیفہ، ص: ۸۸ (۸) انجاء الوطن
(۹)
مقدمہ تاریخ ابن خلدون، ص: ۴۴۵ بحوالہ :مناقب ابی
حنیفہ، ص: ۱۶۳۔
(۱۰) کشف
الغمہ بسراج الامہ، ص: ۶۴ (از : حضرت مولانا سید مہدی حسن
صاحب)
(۱۱)
تلخیص الاستغاثہ، ص: ۱۳، بحوالہ: مناقب ابی حنیفہ،
ص: ۱۲۵
(۱۲) آثار
امام صاحب، ص: ۳۶
(۱۳) الانتقاء،
ص: ۱۳۰ بحوالہ: مناقب ․․․
ص:۱۰۹
(۱۴) تاریخ بغداد، ج:۱۳، ص:
۲۴۵، بحوالہ: ”علم حدیث میں امام ابوحنیفہ کا
مقام و مرتبہ“ (از: حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی مدظلہ)
(۱۵) آثار امام صاحب، ص:۱۳۶
(۱۶) کشف الغمہ․․․ ص:
۵۹، بحوالہ: ”علم حدیث میں امام صاحب کامقام و مرتبہ“
ص:۶
(۱۷) اخبار ابی حنیفہ، ص:
۳۶
(۱۸) الخیرات الحسان، ص: ۶۰،
وانجاء الوطن
(۱۹)تہذیب التہذیب، ج:۴، ص:
۲۴۴، انجاء الوطن، ص: ۳۱
(۲۰) عقود الجواہر، ج:۱، ص:
۲۳، بحوالہ: دفاع، ص: ۱۱۲
(۲۱) مناقب الامام اعظم، ج:۱، ص:
۹۵، بحوالہ: علم حدیث میں ․․․ ص:
۸
(۲۲) توضیح الافکار، ص: ۶۳،
بحوالہ: دفاع․․․ ص: ۱۱۷
(۲۳) مناقب موفق، ج:۱، ص:
۹۶، بحوالہ: مقام ابی حنیفہ، ص: ۱۱۶
(۲۴) تنقیح الافکار، ص: ۶۵
(۲۵)التقریب، ص: ۵۱، بحوالہ:
دفاع ․․․ ص:۱۱۷
(۲۶) دفاع ․․․․ ص:
۱۱۷
(۲۷) الوصیة، ص: ۶۵، بحوالہ:
پمفلٹ
(۲۸) دفاع امام صاحب، ص: ۹۲
(۲۹) تأنیب الخطیب، ص:
۵۶، بحوالہ مقام ابی حنیفہ، ص: ۱۴۰
(۳۰)مقدمہ ابن خلدون، ص:
۴۵۵، بحوالہ: دفاع ․․․ ص: ۹۴
(۳۱) ترتیب المدارک، ج:۱، ص:
۱۸۸، بحوالہ: ماہ نامہ ”دارالعلوم دیوبند“ ماہ رمضان
المبارک ۱۴۱۳ھ
(۳۲) ماہ نامہ ”دارالعلوم دیوبند“ سابقہ
(۳۳)
انجاء الوطن، ص: ۴۴
(۳۴)معرفة علم الحدیث، ص:
۱۱، بحوالہ:ماہ نامہ ”دارالعلوم“
(۳۵) نشر العرف، ص:۱، بحوالہ: ماہ نامہ
دارالعلوم“ مذکورہ، ص: ۸
(۳۶) ترمذی شریف، ج:۱، ص:
۱۱۸، بحوالہ: ماہ نامہ دارالعلوم سابقہ
(۳۷) ہدایہ کتاب القاضی
(۳۸) اعلام الموقعین،ج:۱، ص:
۷۷، بحوالہ: مسند الامام ابی حنیفہ، ص: ۳۴
(۳۹) انجاء الوطن، ص: ۴۰
(۴۰) اعلام الموقعین، ج:۱، ص:
۳۱، بحوالہ: انجاء الوطن
(۴۱) مفتاح السعادہ، ج:۲۰، ص:
۱۱۷، بحوالہ: ماہ نامہ مذکورہ
(۴۲) تاریخ بغداد، ج: ۱۳، ص:
۴۷۱، بحوالہ ماہ نامہ مذکورہ
(۴۳) اتحاف النبلاء المتقین، ص:
۲۳۷، بحوالہ ماہ نامہ مذکورہ
(۴۴) ماہ نامہ ”دعوة الحق“ عربی، شوال
۸۴ھ (ایڈیٹر: حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی،
نوراللہ مرقدہ)
(۴۵) کشف الغمہ بسراج الامہ، ص:
۱۱۴
(۴۶) دفاع امام ابوحنیفہ، ص: ۷۶
(۴۷) دفاع ابوحنیفہ، ص:
۱۱۵
(۴۸) عقود الجواہر، ج:۱، ص:
۲۳، بحوالہ: دفاع ․․․ ص: ۱۱۲
(۴۹) بستان المحدثین، ص: ۷۸
(۵۰)مستدلات الامام ابی حنیفہ، ص: ۴۲
(۵۱) دفاع ․․․․ ص:
۱۱۵ (اردو)
(۵۲) مقام ابی حنیفہ، ص:
۱۳۹، دفاع امام ابوحنیفہ، ص:
۱۰۰، کشف الغمہ․․․ ص: ۵۳، نصر
المقلدین، ص: ۱۹۱ (از حافظ احمد علی)
(۵۳) اشرف الجواب، ص: ۱۷۴
(۵۴) میزان کبریٰ للشعرانی،
ص: ۱۸، بحوالہ: کشف الغمہ، ص: ۵۸
(۵۵) انجاء الوطن، ص: ۴۴
(۵۶) دفاع امام ابوحنیفہ، ص:
۱۰۲
$ $ $
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ10-11،
جلد: 89 ، رمضان، شوال 1426ہجری
مطابق اکتوبر، نومبر 2005ء